پاکستان پر افغان امریکی ویزے، پناہ گزینوں کی درخواستیں ڈی پورٹ نہ کرنے کا مطالبہ

امریکہ کے سابق اعلیٰ حکام اور امریکی بازآبادکاری کی تنظیموں کے ایک گروپ نے منگل کے روز پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ خصوصی امریکی ویزے یا پناہ گزینوں کی امریکہ منتقلی کے لیے ہزاروں افغان درخواست دہندگان کو افغانستان بھیجنے سے استثنیٰ دے۔

نگراں حکومت نے تمام غیر قانونی تارکین وطن بشمول لاکھوں افغانوں کو ملک چھوڑنے یا جبری بے دخلی کا سامنا کرنے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔

اس اقدام پر افغان حکام کی جانب سے ردعمل سامنے آیا تھا اور افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسے ‘ناقابل قبول’ قرار دیتے ہوئے حکام پر زور دیا تھا کہ وہ اس پالیسی پر نظر ثانی کریں۔

2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد فرار ہونے والے تقریبا 20 ہزار یا اس سے زائد افغان پاکستان میں ہیں جو امریکی اسپیشل امیگریشن ویزا (ایس آئی وی) یا پناہ گزینوں کے طور پر امریکہ میں آباد کاری کے لیے اپنی درخواستوں پر کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

80 سابق سینئر امریکی حکام، دیگر افراد اور امریکی بازآبادکاری گروپوں کی جانب سے پاکستانی سفارت خانے کو بھیجے گئے ایک کھلے خط میں کہا گیا ہے کہ ‘انہیں ایسے ماحول میں واپس بھیجنا جہاں ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی’ پاکستان کی جانب سے دستخط شدہ انسانی اصولوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے منافی ہے۔

ان میں جولائی تک پینٹاگون کے نمبر 3 افسر کولن کاہل، کابل میں تین سابق امریکی سفیر اور دو ریٹائرڈ امریکی جنرل شامل تھے۔

اس خط کا اہتمام #AfghanEvac نے کیا تھا جو امریکہ میں آباد ہونے کے لیے کام کرنے والے امریکی گروپوں کا ایک اہم اتحاد ہے جو طالبان کے ساتھ 20 سالہ امریکی جنگ کے دوران امریکی حکومت یا امریکہ سے منسلک تنظیموں کے لیے کام کرنے پر انتقامی کارروائی سے ڈرتے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایس آئی وی یا پناہ گزینوں کی بازآبادکاری کے لیے اپنی درخواستوں پر کارروائی کا انتظار کرنے والوں میں سابق مترجمین، صحافی، خواتین کارکن اور ‘دیگر پیشہ ور افراد’ شامل ہیں جنہیں وطن واپسی کی صورت میں سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دستخط کنندگان نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ان افغانوں کی ملک بدری روک دے اور ‘کم از کم’ انہیں حراست یا ملک بدری سے مستثنیٰ قرار دے۔

حکومت نے کہا ہے کہ ملک بدری کا عمل منظم اور مرحلہ وار کیا جائے گا اور اس کا آغاز مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد سے ہو سکتا ہے۔

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق ملک میں تقریبا 1.73 ملین افغانوں کے پاس کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔