نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد بعد ازاں ایوان بالا میں منظور کرلی گئی۔

سینیٹ نے قومی احتساب (ترمیمی) آرڈیننس 2023 میں مزید 120 روز کی توسیع کی منظوری دے دی۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سپریم کورٹ نے این اے او ترمیم کی بعض شقوں کو کالعدم قرار دینے کے اکثریتی فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی ہے۔
یہ ترامیم پی ڈی ایم کی سابق حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی تھیں کیونکہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو ہدایت کی تھی کہ جب تک سپریم کورٹ حکومت کی اپیل پر حتمی فیصلہ نہیں کرتی تب تک عوامی نمائندوں کے خلاف فیصلے روک دیے جائیں۔
یہ قرارداد نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے پیش کی جسے بعد ازاں پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے منظور کرلیا۔ توسیع کا باضابطہ آغاز 31 اکتوبر 2023 کو ہوا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ قومی احتساب (ترمیمی) آرڈیننس 2023 (2023 کا پہلا) اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 89 کی شق (2) کے پیراگراف (اے) کے ذیلی پیراگراف (2) کی شرط کے تحت 31 اکتوبر 2023 سے مزید ایک سو بیس دن کی توسیع کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
ترمیم شدہ قانون، دیگر دفعات کے علاوہ، اب اینٹی کرپشن واچ ڈاگ کو مشتبہ افراد کو 30 دن تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے، جو پہلے 14 دن کی حد سے زیادہ ہے۔ یہ قانون چیئرمین نیب کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ اگر ملزم تعاون کرنے یا نوٹسکا جواب دینے میں ناکام رہتا ہے تو وہ انکوائری کے دوران وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتے ہیں۔
سینیٹ کی کارروائی کے دوران سینیٹر علی ظفر نے احتساب قانون کی قانونی حیثیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
اس کے برعکس سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کسی فرد کے لیے مخصوص نہیں ہے اور سپریم کورٹ نے صرف کچھ دفعات کو جزوی طور پر مسترد کیا ہے جبکہ دیگر کو برقرار رکھا ہے۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ آرڈیننس نیب کی تنظیم نو کا کام کرے گا۔
تاہم سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آرڈیننس میں توسیع پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے نیب کو ایک ڈکٹیٹر کا مسلط کردہ کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ جمہوری حکومتیں اسے منسوخ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
سینیٹر طاہر بزنجو نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ حالیہ برسوں میں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ عرفان صدیق، مشاہد حسین سید اور منظور کاکڑ سمیت کئی دیگر سینیٹرز نے بھی نیب کی شفافیت، کارکردگی اور تحقیقات اور استغاثہ کی مجموعی تاثیر پر سوالات اٹھائے۔



